باچا خان کی زندگی پر فلم

داؤد اعظمیبی بی سی ورلڈ سروس
فرنٹیئر گاندھی
،تصویر کا کیپشن

فرنٹیئر گاندھی فلم ایک کینیڈین فلم ساز خاتون نے اکیس برسوں کی مسلسل تحقیق کے بعد بنائی ہے

ایک ایسے وقت میں جب عالمی برادری شدت پسندی سے متاثرہ ممالک افغانستان اور پاکستان کے لیے پالیسی مرتب کر رہی ہے تو ایک سوال با رہا اٹھایا جاتا ہے کہ پشتون آبادی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟

عام طور پر پشتونوں کو ان کی جنگجویانہ فطرت اور جنگی تاریخ کی وجہ سے یاد کیاجاتا ہے۔لیکن انہوں نے بیسویں صدی کی کامیاب ترین عدم تشدد تحریک (خدائی خدمتگار تحریک) بھی چلائی جس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کی۔

برِصغیر کی تحریک آزادی کے ایک بڑے رہنما خان عبد الغفار خان المعروف باچا خان کی زندگی اور جدوجہد پر بنائی گئی ایک تفصیلی دستاویزی فلم میں بین الاقوامی طور پر بہت کم جانی جانے والی اس تحریک کی کہانی بیان کی گئی ہے۔

یہ فلم ایک کینیڈین فلم ساز خاتون نے باچا خان اور ان کے عدم تشدد کے فلسفے پر مبنی جدوجہد پر اکیس برسوں کی مسلسل تحقیق کے بعد بنائی ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی دورانیہ پر مبنی اس فلم کا پریمیئر تیسرے مرحلے میں مڈل ایسٹ انٹرنیشنل فلم فیسٹول 2009 میں ابو ظہبی میں دکھایا گیا۔

مڈل ایسٹ انٹرنیشنل فلم فیسٹول کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر سکارلیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس فلم کو اس لیے چنا کہ ’یہ بہت اہم فلم ہے کیونکہ یہ تاریخ کے اس باب کا احاطہ کرتی ہے جس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ فلم اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ امن کے سپاہی کی کہانی ہے جنہوں نے ہر طرح کی سختیاں جھیلنے کے باوجود امن کی مشعل کا سفر جاری رکھا۔‘

فلم بینوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ یہ فلم بڑے اہم موقع پر ریلیز کی گئی ہے۔

فلم دیکھنے کے بعد ایک افغان باشندے سراج ہلال کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا خطہ تشدد کی لپیٹ میں ہے ہمیں باچا خان کے فلسفے کی ضرورت ہے اور ہمیں ان کے قول اور فعل کا زیادہ سے زیادہ پرچار کرنا چاہیے۔‘

غفار خان المعروف باچا خان کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ان کے بارے میں چھپنے والی کئی کتابوں سے ان کا فلسفے کا احیاء ہوا ہے اور اسی طرح یہ دستاویزی فلم بھی پشتونوں کی زندگی کا دوسرا رخ دنیا کو دکھانے میں بہت اہم کردار ادا کرے گی۔

صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ ’سرد جنگ کے دوران باچا خان کے خلاف پایا جانے والا تعصب اب ختم ہو رہا ہے اور دنیا میں ان کو ایک نئے زاویے سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اور یہ فلم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘

فلم دیکھنے والے ایک اور افغان باشندے کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت اچھی بات ہے کہ دوسری اقوام ہمارے خطے اور اس کے اہم رہنماؤں کے کارناموں کے پرچار میں دلچسپی لے رہی ہیں۔‘

باچا خان، فخر افغان اور سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور غفار خان ایک اصلاح پسند رہنما تھے جن کا مشن اپنے پشتون بھائیوں کی اصلاح کرنا اور انہیں متحد کرنے کے ساتھ ساتھ زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔

پشتون جنہیں پٹھان بھی کہا جاتا ہے افغانستان میں سب سے بڑا جبکہ پاکستان میں دوسرا بڑا لسانی گروہ ہے۔

خان عبدالغفار خان نے انیس سو انتیس میں خدائی خدمتگار کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا مقصد پشتون اکثریتی علاقوں اور غیر منقسم ہندوستان کو ہڑتالوں، جلوسوں اور تشدد سے پاک اختلاف کے ذریعے برطانوی تسلط سے آزاد کرانا تھا۔

عدم تشدد کی اس تحریک میں تقریبًا تین لاکھ افراد شامل ہوئے اور یہ عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھنے والی دنیا کی پہلی فوج تھی۔ اس فوج نے بھارت کی تحریک آزادی میں بدترین صعوبتیں اٹھائیں۔

فلم میں مہاتما گاندھی سے خان عبدالغفار خان کی وابستگی اور برطانوی سامراج کے خلاف ان کی مشترکہ جدوجہد کی داستان دکھائي گئي ہے اور جا بجا باچا خان کی خود نوشت سوانح سے ان کے اقوال بھی دہرائے گئے ہیں۔

ایک جگہ خان عبد الفغار خان کا لکھا ہوا یہ مقولہ دہرایا گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’وہ پٹھان جو سارا وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ اپنے بھائی کا گلا کیسے کاٹا جائے، اس جیسے تشدد و طاقت کے ماحول میں پلے پٹھان کو عدم تشدد کا پیروکار بنانا کوئي آسان کام نہیں تھا۔‘

فلم میں باچا خان کے کئي سابق خدائي خدمتگار اور بھارت میں ان کے اس دور کے کانگرس کے ساتھیوں کو کہتے دکھایا گیا ہے کہ باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفے میں مذہبی و نسلی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

فسلماز ٹیری مکلوئین کا کہنا ہے کہ ’یہ سچ ہے کہ یہ خطہ روزانہ حملوں کا نشانہ بن رہا ہے لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسی دستاویزی فلموں کے ذریعے عدم تشدد کی تحریک کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ باچا خان کی شخصیت اور فلسفے سے اس خطے میں پرامن بقائے باہمی کا احیاء ممکن ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی حل موجود نہیں۔‘

’جس چيز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا وہ خان غفار خان کی انسانی عظمت تھی جو کہ ہر کسی میں نہیں ہوتی اور تب ہی میں نے فیصلہ کیا تھا کہ مجھے سرحدی گاندھی کے متعلق زیادہ جاننا ہے اور پھر اس کم معروف شخص کو ساری دنیا میں متعارف کرانا ہے۔‘

فلم میں خان عبد الغفار کے ساتھ کام کرنے والے ان کے سابق خدائي خدمتگار رضا کاروں کو بھی دکھایا گیا ہے جن میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں۔ ان خدائي خدامتگاروں کی عمریں اب نوے کے لگ بھگ ہیں اور ایک کے پاس تو باچا خان کے زمانے کی سنبھال کر رکھی ہوئی وردی بھی تھی۔

اس فلم میں اندر کمار گجرال، ایم جے اکبر، نرملا دیش پانڈے، خان عبدالولی خان، نسیم ولی خان، اسفند یار ولی، افراسیاب خٹک، سابق فوجی حکمران پرویز مشرف اور افغانستان کے صدر حامد کرزئي کو باچا خان پر بولتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

فلم میں افغانستان کے صدر حامد کرزئي کو ان کے بچپن میں باچا خان سے ان کی ملاقات کے متعلق بات کرتے دکھایا گيا ہے۔ جبکہ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو کہتے دکھایا گيا ہے کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ وہ (باچا خان) محب وطن پاکستانی تھے۔‘