Bacha Khani
I am a professor and a researcher on Bacha Khan. In this blog I will try to explain Bacha Khan's life and character; his philosophy of non-violence; his struggle for the independence of the Indo-Pak sub continent; his role in the spread of education and ending enmity among the pukhtoons; his struggle for peace and his role in khudai khidmatgari or service to humanity.
Bacha Khani
I am a professor and a researcher on Bacha Khan. In this blog I will try to explain Bacha Khan's life and character; his philosophy of non-violence; his struggle for the independence of the Indo-Pak sub continent; his role in the spread of education and ending enmity among the pukhtoons; his struggle for peace and his role in khudai khidmatgari or service to humanity.
Friday, September 24, 2021
Monday, July 12, 2021
برہ سوات کښے یو سړے وو، سم زمرے وو (د مرحوم محمد طاھر خان اشاڑی پہ یاد کښے)
برہ سوات کښے یو سړے وو، سم زمرے وو
نر پختون وو ننګیالے وو، سم زمرے وو
پہ ملګری مرګ کولو تہ تیار وو
د پختون بابا بچے وو، سم زمرے وو
د دہ مخہ چرے چا نہ وہ نیولے
ګړندے وو، میړنے وو، سم زمرے وو
ہمیشہ سر پہ تلی کښے ګرځید لو
مبارز وو، توریالے وو، سم زمرے وو
یو خلا دہ چہ پیدا د دہ پہ مرگ پیدا شوہ
زما ترہ، زما زړګے وو، سم زمرے وو۔
Tuesday, May 18, 2021
Sunday, May 16, 2021
د َ بیګم نسیم ولی خان شخصیت او سیاست
بیګم نسیم ولی خان
بیګم نسیم ولی خان پہ ۱۹۳۳ کښے پہ مردان کښے پیدا شوے وہ۔
پہ ۱۹۵۴ کښے بی بی د خان عبد الولی خان کور ودانے جوړہ شوہ۔
پہ۱۹۷۵ کښے بی بی سیاسی میدان تہ ھغہ وخت را اووتلہ کلہ چہ د باچا خان د کورنئ ټول نارینہ پہ جیلونو کښے وو او پہ نیشنل عوامی پارټئ د ذولفقارعلی بھټو د حکومت لہ طرفہ پابندی لګولے شوے وہ۔ ۔
د جنرل ضیا الحق پہ دور کښے د بی بی د انتھک کوششونو پہ وجہ خان عبد الولی خان او نور پہ درزنونود نیپ لیډران د جیلونو نہ را خلاص کړے شو، پہ کومو کښے چہ د پختون قام یو بل ستر مشر محمد افضل خان لالا ھم شامل وو۔۔
مشہورہ دہ چہ کلہ بی بی پړونے د سر نہ ارتاو کړو او پښتنو تہ ئے چغے کړے چہ پښتنو ما تہ پړونے پہ سر کړئ نو پښتنو د بی بی پہ اواز باندے لبیک او وئیل او د ھغے ملګرتیا ئے ښہ پہ نرہ وکړہ۔
۱۹۷۷ کښے بی بی د پاکستان قومی اتحاد پہ لویو لیډرانو کښے شاملہ وہ او د امریت خلاف ئے جدو جہد کړے دے۔
د ۱۹۷۷پہ انتخاباتو کښے بی بی ھلو یو نوے ریکارډ قایم کړو کلہ چہ د چارسدے نہ بی بی اولنئ ښځہ ممبرہ د اسمبلئ وټاکلے شوہ۔ بی بی د چارسدے پښتنو درے ځلہ د صوبائی اسمبلئ غړے اټاکلہ او بی بی د حکومتونو پہ جوړوونکے مشہورہ شوہ۔
پہ ۱۹۸۶ کښے نیشنل عوامی پارټی جوړہ شوہ او بی بی د اے این پی صوبائی صدرہ او پارلیمانی لیډرہ پاتے وہ۔
بی بی ھمیشہ د جمہوریت مرستہ او د امریت مخالفت کړے دے۔
ڼ د بی بی د مرګ سرہ د پختونخوا یو ډیر اہم او یو ډیر غټ باب ختم شو ۔ اللہ دے اوبخی۔
Tuesday, April 27, 2021
Friday, April 23, 2021
الحمد للہ۔ سید جعفر شاہ صاحب کی طبیعت میں بہتری آرہی ہے۔
Monday, April 19, 2021
Thursday, April 15, 2021
رییس علی شاہ ولد پروفیسر جہان شیر
رییس علی شاہ نے میٹرک میں 981 مارکس کیساتھ اوٹسٹینڈ ینگ پوزیشن لیا اور ایف ایس سی میں 976 کیساتھ سوات تعلیمی بورڈ میں ٹاپ ٹونٹی ذھین ترین سٹوڈنٹس میں رہے۔،
آجکل رییس علی شاہ انٹرنیشنل اسلامیک یونیورسیٹی میں شریعہ اینڈ لا کر رہے ہیں کیونکہ میڈیکل پروفیشن پر رییس نے جوڈیشری کو ترجیح دی ہے۔
دست بہ دعا ہوں کہ مستقبل قریب میں برخوردار رییس جج بن کر عوام الناس کو انصاف دینے کا فریضہ سر انجام دے اور ہمارے خاندان کی عزت بنے۔ آمین
Sunday, April 11, 2021
سرکاری ملازمین کی پنشن ختم ، ریٹائرمنٹ پر اب کیاملےگا؟ آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے تازہ شرط عائد کر دی
لاہور(این این
ایس نیوز) سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے سرکاری
ملازمین کی پنشن ختم کرنے کی شرط عائد کردی، آئی ایم ایف شرط رکھی کہ سرکاری
ملازمین ایک ہی بار گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کردیں،وزیراعظم کو کھڑے ہونا چاہیے
کہ کووڈ کی وجہ سے سرکاری ملازمین کو
نوکریوں سے فارغ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے نجی
ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ بڑے پیمانے پر سرکاری
ملازمین احتجاج یا دھرنا دینے کی تیاری میں ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اجلاس
ہوچکا ہے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کردیں، سرکاری ملازمین ایک ہی بار گولڈن
ہینڈ شیک ، پیسا دے کر فارغ کردیں۔ جبکہ آئندہ کیلئے پنشن بالکل ختم کردیں، آئی
ایم ایف کی شرائط بڑی عجیب سی ہیں، وزیراعظم عمران خان کو چاہیے اس معاملے میں خود
مداخلت کریں اور اسٹینڈ لیں ۔ وزیراعظم بات کریں کہ دنیا بھر میں اس وقت کورونا کی
صورتحال سے معیشت دوچار ہے، لوگ پہلے ہی بڑے مسائل میں ہیں۔ ابھی چار پانچ ماہ
ٹھہر جائیں اس کے بعد ہم اس پر نظرثانی کرسکتے ہیں، اس لیے موجود ہ حالات میں
لوگوں کو نوکریوں سے نہیں نکال سکتے۔ سرکاری ملازمین نے قلم چھوڑ ہڑتال کی امید ہے
کہ معاملہ حل ہوجائے۔ واضح رہے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا گزشتہ روز کہنا تھا
کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ مالی سپورت پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کر
رہا ہے اور کورونا وائرس کے برے اثرات کے باوجود معیشت میں بہتری کے لیے پرامید
ہوں۔ہمیں امید ہے کہ مارکیٹ اور دنیا کے لیے اچھی خبر ہوگی کیونکہ ہم پروگرام کو
بحال کر رہے ہیں۔ دونوں فریقین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور پاکستان کو جی
ڈی پی کی کم شرح بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف دونوں ملک میں آئی
ایم ایف کی مدد سے معاشی اصلاحات پر کام کر رہے ہیں جس میں خاص کر ٹیم کی وصولی،
معیشت کے استحکام اور مالی خسارے کو ختم کرنا ہے۔ گوکہ بیل آٹ پیکیج اب تک
زیرالتوا ہے لیکن پاکستان کو آئی ایم ایف سے ہنگامی طور پر 14 لاکھ ڈالر موصول
ہوچکے ہیں تاکہ کورونا وبا کے باعث ہونے والے اخراجات اور معیشت کے اثرات پر وقتی
طور پر قابو پایا جائے۔ حکام کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے پیکیج سے پاکستان کو
اپنی مالی پوزیشن بہتر کرنے اور عالمی سطح پر معاشی اعتماد کی بحالی میں مدد ملے
گی۔پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ تیریسا ڈیبن سانچیز کا کہنا تھا کہ ‘پاکستانی
حکام اور آئی ایم ایف کی ٹیمیں جڑی اور مذاکرات میں لگی ہوئی ہیں، دونوں ٹیمیں
سخت محنت کر رہی ہیں اور پروگرام کی بحالی کے مثبت نتائج کے لیے کام کر رہی ہیں۔
Tuesday, April 6, 2021
Monday, April 5, 2021
باچا خان کی زندگی پر فلم
باچا خان کی زندگی پر فلم

فرنٹیئر گاندھی فلم ایک کینیڈین فلم ساز خاتون نے اکیس برسوں کی مسلسل تحقیق کے بعد بنائی ہے
ایک ایسے وقت میں جب عالمی برادری شدت پسندی سے متاثرہ ممالک افغانستان اور پاکستان کے لیے پالیسی مرتب کر رہی ہے تو ایک سوال با رہا اٹھایا جاتا ہے کہ پشتون آبادی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟
عام طور پر پشتونوں کو ان کی جنگجویانہ فطرت اور جنگی تاریخ کی وجہ سے یاد کیاجاتا ہے۔لیکن انہوں نے بیسویں صدی کی کامیاب ترین عدم تشدد تحریک (خدائی خدمتگار تحریک) بھی چلائی جس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کی۔
برِصغیر کی تحریک آزادی کے ایک بڑے رہنما خان عبد الغفار خان المعروف باچا خان کی زندگی اور جدوجہد پر بنائی گئی ایک تفصیلی دستاویزی فلم میں بین الاقوامی طور پر بہت کم جانی جانے والی اس تحریک کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
یہ فلم ایک کینیڈین فلم ساز خاتون نے باچا خان اور ان کے عدم تشدد کے فلسفے پر مبنی جدوجہد پر اکیس برسوں کی مسلسل تحقیق کے بعد بنائی ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی دورانیہ پر مبنی اس فلم کا پریمیئر تیسرے مرحلے میں مڈل ایسٹ انٹرنیشنل فلم فیسٹول 2009 میں ابو ظہبی میں دکھایا گیا۔
مڈل ایسٹ انٹرنیشنل فلم فیسٹول کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر سکارلیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس فلم کو اس لیے چنا کہ ’یہ بہت اہم فلم ہے کیونکہ یہ تاریخ کے اس باب کا احاطہ کرتی ہے جس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ فلم اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ امن کے سپاہی کی کہانی ہے جنہوں نے ہر طرح کی سختیاں جھیلنے کے باوجود امن کی مشعل کا سفر جاری رکھا۔‘
فلم بینوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ یہ فلم بڑے اہم موقع پر ریلیز کی گئی ہے۔
فلم دیکھنے کے بعد ایک افغان باشندے سراج ہلال کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا خطہ تشدد کی لپیٹ میں ہے ہمیں باچا خان کے فلسفے کی ضرورت ہے اور ہمیں ان کے قول اور فعل کا زیادہ سے زیادہ پرچار کرنا چاہیے۔‘
غفار خان المعروف باچا خان کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ان کے بارے میں چھپنے والی کئی کتابوں سے ان کا فلسفے کا احیاء ہوا ہے اور اسی طرح یہ دستاویزی فلم بھی پشتونوں کی زندگی کا دوسرا رخ دنیا کو دکھانے میں بہت اہم کردار ادا کرے گی۔
صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ ’سرد جنگ کے دوران باچا خان کے خلاف پایا جانے والا تعصب اب ختم ہو رہا ہے اور دنیا میں ان کو ایک نئے زاویے سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اور یہ فلم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘
فلم دیکھنے والے ایک اور افغان باشندے کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت اچھی بات ہے کہ دوسری اقوام ہمارے خطے اور اس کے اہم رہنماؤں کے کارناموں کے پرچار میں دلچسپی لے رہی ہیں۔‘
باچا خان، فخر افغان اور سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور غفار خان ایک اصلاح پسند رہنما تھے جن کا مشن اپنے پشتون بھائیوں کی اصلاح کرنا اور انہیں متحد کرنے کے ساتھ ساتھ زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔
پشتون جنہیں پٹھان بھی کہا جاتا ہے افغانستان میں سب سے بڑا جبکہ پاکستان میں دوسرا بڑا لسانی گروہ ہے۔
خان عبدالغفار خان نے انیس سو انتیس میں خدائی خدمتگار کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا مقصد پشتون اکثریتی علاقوں اور غیر منقسم ہندوستان کو ہڑتالوں، جلوسوں اور تشدد سے پاک اختلاف کے ذریعے برطانوی تسلط سے آزاد کرانا تھا۔
عدم تشدد کی اس تحریک میں تقریبًا تین لاکھ افراد شامل ہوئے اور یہ عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھنے والی دنیا کی پہلی فوج تھی۔ اس فوج نے بھارت کی تحریک آزادی میں بدترین صعوبتیں اٹھائیں۔
فلم میں مہاتما گاندھی سے خان عبدالغفار خان کی وابستگی اور برطانوی سامراج کے خلاف ان کی مشترکہ جدوجہد کی داستان دکھائي گئي ہے اور جا بجا باچا خان کی خود نوشت سوانح سے ان کے اقوال بھی دہرائے گئے ہیں۔
ایک جگہ خان عبد الفغار خان کا لکھا ہوا یہ مقولہ دہرایا گیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’وہ پٹھان جو سارا وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ اپنے بھائی کا گلا کیسے کاٹا جائے، اس جیسے تشدد و طاقت کے ماحول میں پلے پٹھان کو عدم تشدد کا پیروکار بنانا کوئي آسان کام نہیں تھا۔‘
فلم میں باچا خان کے کئي سابق خدائي خدمتگار اور بھارت میں ان کے اس دور کے کانگرس کے ساتھیوں کو کہتے دکھایا گیا ہے کہ باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفے میں مذہبی و نسلی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
فسلماز ٹیری مکلوئین کا کہنا ہے کہ ’یہ سچ ہے کہ یہ خطہ روزانہ حملوں کا نشانہ بن رہا ہے لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسی دستاویزی فلموں کے ذریعے عدم تشدد کی تحریک کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ باچا خان کی شخصیت اور فلسفے سے اس خطے میں پرامن بقائے باہمی کا احیاء ممکن ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی حل موجود نہیں۔‘
’جس چيز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا وہ خان غفار خان کی انسانی عظمت تھی جو کہ ہر کسی میں نہیں ہوتی اور تب ہی میں نے فیصلہ کیا تھا کہ مجھے سرحدی گاندھی کے متعلق زیادہ جاننا ہے اور پھر اس کم معروف شخص کو ساری دنیا میں متعارف کرانا ہے۔‘
فلم میں خان عبد الغفار کے ساتھ کام کرنے والے ان کے سابق خدائي خدمتگار رضا کاروں کو بھی دکھایا گیا ہے جن میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں۔ ان خدائي خدامتگاروں کی عمریں اب نوے کے لگ بھگ ہیں اور ایک کے پاس تو باچا خان کے زمانے کی سنبھال کر رکھی ہوئی وردی بھی تھی۔
اس فلم میں اندر کمار گجرال، ایم جے اکبر، نرملا دیش پانڈے، خان عبدالولی خان، نسیم ولی خان، اسفند یار ولی، افراسیاب خٹک، سابق فوجی حکمران پرویز مشرف اور افغانستان کے صدر حامد کرزئي کو باچا خان پر بولتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
فلم میں افغانستان کے صدر حامد کرزئي کو ان کے بچپن میں باچا خان سے ان کی ملاقات کے متعلق بات کرتے دکھایا گيا ہے۔ جبکہ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو کہتے دکھایا گيا ہے کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ وہ (باچا خان) محب وطن پاکستانی تھے۔‘
Sunday, April 4, 2021
حاجی امیر صاحب مرحوم۔ والد محترم سید جعفر شاہ، پروفیسر جہان شیر، شیر بادشاہ، یوسف شاہ، جاوید شا۰ مولانا انور شاہ، مسلم شاہ، جہان بادشاہ اور سید انعام شاہ۔ مرحوم د لس اتیا کالو نیشنلے وو۔ د اے این پی د صوبائی کونسل غړے وو۔ د ولی خان د مجلس ملګرے وو، او د اشاړی خان پہ حجرہ کښے ئے د باچا خان سرہ ناستے ھم شوے وے۔ د حاجی صیب څلور دپاسہ سل کالہ عمر وو او پہ دے کښے ئے لس اتیا کالہ پہ اے این پی کښے د کارکن او بیا د صوبائی کونسل د غړی پہ حیس تیر کړل۔ حاجی صیب پروسہ کال د لاک ډاون پہ دوران کښ د خالق حقیقی سرہ ملاو شو۔ عوامی نیشنل پارټئ د حاجی صیب پہ جوندانہ د هغہ د خدماتو پہ سلہ کښے دَ مرحوم حاجی صیب مشر زوی سید جعفر شاہ تہ دوہ ځلہ د صوبائی اسمبلئ ټکټ ورکو۔ حاجی صیب تر مرګہ پورے دَ اے این پی سرہ پیوستون ودرلود۔ اللہ دِ د حاجی صیب هغہ ډیر عمر پہ راحتہ کړی۔ آمین
Saturday, April 3, 2021
Friday, April 2, 2021
د سید جعفر شاه پہ شګئ شاہګرام کښے تقریر۔ د حاجی سید رحیم شاه مرحوم آف شګئ شاہګرام شمولیت۔ حاجی قلندر میاں مرحوم، سید امیرحمزہ میاں مر حوم، ګل میاں (خانزادہ میاں آف اریانہ تیرات) مرحوم، شاہ ابدار میاں ایڈوکیٹ، اعزاز احمد میاں، سید شاہ جہان آف پکلئ شاہګرام تہ خراج تحسین اود حاجی سید رحیم شاہ مرحوم شکریہ شاہ صیب ادا کړہ۔ اللہ دِ ټول مرحمان اوبخی او اللہ دِ دَ ټولو ژوندو ملګرو یر عمر، خوشحالی او کامیابی نصیب کړی۔ آمین۔
Thursday, April 1, 2021
Monday, March 29, 2021
Tuesday, March 23, 2021
23 مارچ 1973: شہدایے لیاقت باغ کا دن (تحریر: عارف پشتون)
Saturday, March 20, 2021
Tuesday, March 16, 2021
Sunday, March 14, 2021
خان عبدالولی خان کی شخصیت و سیاست: میاں صاحب کی زبانی۔
عبد الولی خان بابا پختو ن سیاست کا ایک روشن با ب
ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دُکھا گیا
کہ شامِ غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا
تحریر : میاں افتخار حسین ( صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات )
خان عبد الولی خان ایک زیرک اور دور اندیش سیاستدان تھے۔موصوف بیک وقت تین زمانوں یعنی ماضی، حال اور مستقبل میں رہا کرتے تھے۔ ان کی منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کا ایک خاص پس منظر ہوا کرتا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ولی خان باچا خان مرکز پشاور میں اپنی زندگی کی آخری پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے وصیت کی تھی کہ امریکہ افغانستا ن کو برباد کرکے بے یارو مدد گار چھوڑ کر نہ جائے۔اگر امریکہ نے افغانستان کو برباد کیا ہے تو وہ آباد بھی کرے۔ولی خان بابا کے اس موقف سے عوامی نیشنل پارٹی کی مقبولیت میں کسی حد تک کمی بھی آئی تھی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ولی خان بابا کی منطق ان کے حلیفوں اور حریفوں پر عیاں ہو گئی۔ انہوں نے مان لیا کہ ان کا موقف سو فیصد درست تھا۔امریکہ نے روس کے خلاف ہمارے خطے کو استعمال کیا تھا اورجنگ لڑنے کیلئے افغان مجاہدین کی فورس قائم تھی جس نے روس کی شکست کے بعد طالبان کی شکل اختیار کر لی۔ولی خان بابا کا موقف تھاکہ چونکہ افغانستان کی تباہی اور طالبان کی پرورش میں امریکہ ملوث ہے لہذا یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ افغانستان کو آباد بھی کرے اور اپنی قائم کردہ تنظیم کو غیر مسلح بھی کرے۔ امریکہ نے ولی خان بابا کے اس موقف کو اہمیت نہ دی اور تباہ حال افغانستان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں آ ج امریکہ اور طالبان آپس میں بر سرپیکار ہیں اور جنگ و جدل کی آڑ میں افغانستان اور پاکستان میں ایک کاروباری جنگ جاری ہے۔اگر ماضی میں ولی خان کے موقف کو اہمیت دی جاتی تو صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔یہ ولی خان کی دور اندیشی اور وسیع النظری تھی جو بعد میں سیاسی پنڈتوں پر کھلی اور ان کی سوچ اور فکر کو تسلیم کیا گیا اور عوام نے عوامی نیشنل پارٹی کو مسند اقتدار سونپا۔آج اگر ملکی سطح پرکسی کو امن اور صلح جوئی کی علامت سمجھا جاتاہے تو وہ اسفندیار ولی خان ہیں۔ملکی سطح پر حکومت، عدلیہ یا دیگر اداروں کے مابین جب کوئی تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو اسفندیار ہی کو آگے آنا پڑتا ہے کیونکہ وہ باچا خان اور ولی خان کی سوچ کے پیروکار ہیں۔خیبر یہ تو برسبیل تذکرہ میں نے ایک بات کہہ دی رہبر تحریک ولی خان نے اپنی ساری زندگی اپنے والد فخر افغان با چا خان کی طرح عدم تشدد اور پختونوں کے حقوق کے لئے گزاردی۔ ان کی زندگی
(۲)
کے کئی برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرے لیکن کبھی بھی اُصولوں پر سودے بازی نہیں کی یہی وجہ ہے کہ عبد الولی خان بابا کی خدمات کو فرامو ش نہیں کیا جا سکتا جب بھی ملک میں جمہوریت کی بات ہو تی ہے ولی خان باباکی خدمات کا اعتراف لازمی ہو تاہے۔ ولی خان11 جنوری 1917ء کو اتمانزئی چارسدہ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم آزاد اسلامیہ ہائی سکول سے حاصل کی جس کی بنیاد ان کے والد با چا خان نے رکھی تھی ولی خان بابا اس سکول کے پہلے طالب علم تھے اس کے بعد وہ ڈیرہ دون پبلک سکول چلے گئے 1933 ء میں اُنہوں نے سنیئر کیمرج کیا ان دنوں اُن کی آنکھ میں تکلیف شروع ہو گئی اور ڈاکٹروں نے اُنہیں مزید پڑھائی سے منع کیا اُنہوں نے 1942 ء میں خدائی خدمت گار تحریک سے سیا ست کا آغاز کیا اس تحریک کے دوران پہلی مرتبہ1943 ء میں انہیں ایف سی آر کے تحت جیل بھیج دیا گیا ۔ اس کے بعد انہیں 15 جون1948 ء کو گرفتار کیا گیا اور ہری پور جیل میں رکھا گیا اس دوران بارہ اگست کو با بڑہ کا واقعہ رونما ہوا یہ ایک احتجاجی جلسہ تھا جو با چا خان، ولی خان اور دیگر خدائی خدمت گار رہنماؤں کی رہائی کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا اس جلسہ کے حاضرین پر گولیاں بر سائی گئیں جس سے سینکڑوں افراد شہید ہوئے ۔ 1953 ء میں فیڈرل کورٹ نے انہیں رہا کیا اس طرح ولی خان مسلسل پانچ سال،پانچ مہینے اور پانچ دن جیل میں رہے۔ رہائی کے بعد با چا خان بابا کی اجازت پرحکومت سے مہینوں پر محیط مذاکرات کے لئے اپنے مدبرانہ، دانشمندانہ، حقیقت پسندانہ، واضح اور دو ٹوک موقف کی وجہ سے حکومت وقت کو قائل کیا اور خدائی خدمت گار تحریک کے حوالے سے غلط فہمیوں کا ازالہ کیاجس کی وجہ سے خدائی خدمت گاروں کے لئے عام معافی کا اعلان ہو ااور وہ رہا کردیئے گئے جبکہ ضبط شدہ جائیدادیں بھی واپس کردی گئیں1954 ء میں ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا، جسے توڑنے کے لئے با چا خان نے سرتوڑ کو ششیں کیں، ولی خان بھی پیش پیش تھے ان کی کو ششوں سے ملکی سطح پر1957ء میں ایک نئی پارٹی عمل میں لائی گئی جس کا نام عوامی نیشنل پارٹی (نیپ) رکھا گیا۔1969 ء میں ولی خان نیپ کے مرکزی صدر بنے 13 نومبر1968 ء میں ولی خان کو ایو ب خان کے خلاف بیانات دینے کے جرم میں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا اور مارچ1969 ء کو رہا ہوئے 26 نومبر1971 ء کو یحیٰ خان نے نیپ پر پابندی لگا دی ۔بعد میں بھٹو نے پابندی ہٹالی۔8 فروری1975 ء کو سرحد کے گورنر اور پیپلز پارٹی کے رہنما حیات شیر پاؤ ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان کے قتل کا الزام ولی خان پر لگایا اور انہیں اسی رات لاہور سے پشاور آتے ہوئے گجرات کے قریب گرفتار کر لیا گیا اسی طرح نیپ کے تمام سرکردہ رہنما صوبہ سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ سے گرفتار ہوئے۔ بھٹو امریکہ کے دورے پر تھے وہاں سے فوراً لو ٹ آئے اور 9 فروری1975 ء کو اُنہوں نے نیپ(عوامی نیشنل پارٹی)ُ پر پابندی لگا دی اور ولی خان اور ان کے ساتھیوں پر حیدر آباد سازش کیس کا مقدمہ بنایا گیا ولی خان پر چار مرتبہ قاتلانہ حملے ہوئے دو دفعہ ملاکنڈ ایجنسی میں اور دو حملے پنجاب میں مگر خدا نے ان کو بچا لیا۔ جنوری1977 ء میں بھٹو نے عام انتخابات کا اعلان کیا، مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئیں اور انتخابات کی تیاریاں شروع ہوئیں اپو زیشن کی تمام پارٹیاں اکٹھی ہوگئیں اور اُنہوں نے یو ڈی ایف کی بجائے پی این اے (قومی اتحاد) بنایا۔
(۳)
مارچ 1977 ء میں قومی اسمبلی کے الیکشن ہوئے جن میں سرکاری اعلان کے مطابق پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کرلی۔ پی این اے نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور دس مارچ 1977 ء کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ اپوزیشن کے منتخب ارکان قومی اسمبلی نے احتجاجاً استعفے دیئے اور تحریک شروع کی۔ ضیا ء الحق نے جولائی1977 ء میں مارشل لاء لگایا اور بھٹو کو گرفتار تقریباً تین ہفتے بعد ولی خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملاقا ت کے لئے ضیاء الحق خود حیدر آباد جیل گئے ان سے مذاکرات کئے اور آخر کا ر حید ر آباد سازش کیس میں ملوث تمام افراد کو رہا کردیا گیا جنرل ضیا ء الحق کی حکومت کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک میں عبد الولی خان بابا کو ایک اہم حیثیت حاصل تھی اور اس تحریک کے دوران وہ متعدد بار گرفتار ہوئے1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات میں این ڈی پی نے حصہ لیا تھا ولی خان غیر جماعتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے حق میں تھے ان دنوں سردار شیر باز مزاری این ڈی پی کے مرکزی صدر تھے ۔1986ء میں کراچی میں این ڈی پی کو عوامی نیشنل پارٹی میں تبدیل کردیا گیا جس کے بعد ملک کے کئی نامورقوم پر ست رہنماؤں نے خان عبدالولی خان کی قیادت میں اے این پی سے نیا سیاسی سفرشروع کیا ۔1988 ء میں خان عبدالولی خان این اے 5 چارسدہ سے ایم این اے منتخب ہوئے اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے اہم رہنما کے طور پر پیش پیش رہے۔1993 میں خان عبدالولی خان نے این اے۔ 5 چارسدہ سے الیکشن میں ناکامی کے بعد اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پارٹی کی صدارت چھوڑ دی اجمل خٹک ان کی جگہ اے این پی کے صدر منتخب ہوئے اور خان عبدالولی خان نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی خان عبدالولی خان کا یہ کردار پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
پاکستان کی سیاسی، تاریخ فلسفہ عدم تشدد کے بانی عظیم سرخ پوش لیڈر فخر افغان جناب باچا خان کے عظیم سپوت خان عبد الولی خان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی وہ آخری دم تک اپنے والد محترم کے سیاسی فلسفے اور نظریات پر پورے اعتماد کے ساتھ کار بند رہے اور اصولی سیاست کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں متعدد بار جیلوں کی صعوبتیں اور ذہنی اذیتوں سے گزرنا پڑا لیکن مجال ہے کہ باچا خان کے اس عظیم سپوت کے پاؤں کسی موقع پر ڈگمگائے ہوں وہ ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنے سیاسی نظریات کا دفاع کرتے رہے ۔ یہ نظریات کیا تھے؟ اور وہ اس ملک کوکسی طرح دیکھنا چاہتے تھے ۔ آئیے اس امر کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ جناب محترم ولی خان کا جھگڑا اسلام یا سوشلزم سے نہیں تھا وہ مذکورہ دونوں ضابطہ حیات سے سیاسی طور پر مختلف نظریہ رکھتے تھے اور وہ ترقی پسندانہ قوم پرست سیاسی نظریہ نیشنل ازم کے حامی تھا ۔ وہ اپنی مٹی یعنی دھرتی ماں سے بے پناہ پیار کرتے تھے اور وہ اپنی تاریخ ،ثقافت ، تہذیب اور جدید تقاضوں کے حواے سے قوم کا اُن کے وسائل پر مکمل اختیار چاہتے تھے ۔اور وہ قوم کو دُنیا میں ممتاز مقام دلانے کے لئے بھی کو شاں تھے اپنی قوم کی طرح دیگر اقوام کو بھی مقام دلانے کے حامی تھے یعنی وہ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر گامزن تھے۔ ان کی اسی قوم پرستانہ نظریہ کو مخصوص سیاسی حلقے اور خفیہ قوتیں انکی زندگی میں پوری چابک دستی کے ساتھ ہدف تنقید بناتی رہیں اور عوام کے سامنے انکے سیاسی قد کاٹ کو گرانے کی مزموم اور
(۴)
ناکام کوششیں کرتی رہیں۔ انہیں غدار اور علیحدگی پسند سیاستدان کے منفی القابات سے نوازا جاتا رہا اور وہ ان سب الزامات کا جواب ترکی بہ ترکی دیتے رہے مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مرحوم ضیاء الحق نے اخبارات میں انکے خلاف ایک سیاسی بیان داغا جس میں موصوف نے کہا کہ ’’ پاکستان کو ایک درجن ولی خان بھی نہیں توڑ سکتے جس پر ولی خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘ ایک درجن ولی خانوں کو پاکستان توڑنے کی کیا ضرورت ہے پاکستان توڑنے کے لئے پہلے بھی ایک جرنیل کافی تھا اور اب بھی ایک جرنیل کافی ہے۔ خیر یہ تو ٓضمنی سے بات تھی میں بات کر رہا تھا نیشنل ازم کی، ولی خان بابا کا نیشنل ازم صرف پختونوں تک محدود نہیں تھا جیسا کہ اغیار پروپیگنڈہ کر رہے تھے انکے نزدیک تو نیشنل ازم پاکستان کی چاروں اکائیوں کے حقوق کی بازیابی اور وسائل پر اپنے اختیار کا حق تھا ولی بابا پنجابیوں‘ بلوچیوں‘ سندھیوں اور پختونوں کو اپنے مخصوص ثقافتی حد بندیوں میں خوش و خرم اور اپنے وسائل کے حوالے سے خود مختار دیکھنا چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ صوبہ پختون خوا کے علاوہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ موجود تھا اور موجود ہے انہو ں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ عام پنجابی عام پختون کا استحصال کر رہا ہے اس سے انکی مراد صوبہ پنجاب کی بیورو کریسی‘ جاگیر دار اور صنعت کار طبقہ تھا جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے نہ صرف صوبہ پختون خوا بلکہ دیگر صوبوں کا بھی استحصال کر رہا تھا۔پاکستان میں انکے خیالات اور نظریات کو مخصوص حلقوں نے ہمیشہ غلط معنی پہنائے ہیں۔
قیام پاکستان کے فورا بعد ملک میں سیاست کو قتل کرنے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا تھا سیاسی راہنماؤں کی کردار کشی روز کا معمول بن چکا تھا اور اس ضمن میں ملک میں زرد صحافت کو فروغ دیا گیا اور قومی اخبارات کو اس منفی کام کو سرانجام دینے کا ٹاسک سونپا گیا اور ولی خان بابا کو مخصوص قو تیں منفی تنقید کا نشانہ بنا تی رہیں ۔ بقول شاعر
’’خلقت نے آواز ے کسے طعنے دیئے فتوے گڑے‘‘
’’وہ سخت جاں ہنستا رہا گو خود کشی پل پل میں تھی‘‘
جناب ولی خان کرسی اور اقتدار کی سیاست کے سخت خلاف تھے وہ وحدت فکر اور عمل پر یقین رکھتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ اچھی لیڈر شپ وحدت فکر سے پیدا ہوتی ہے اور پاکستان میں وحدت فکر کے بجائے انتشار ہے یکسانیت کی بجائے شخصیت اور انا پرستی ہے وہ نیشنل کریکٹر کے فقدان پر بھی رنجیدہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں ادارے مقدم نہیں شخصیات مقدم ہیں ہمارے ہاں ادارے اور سیاسی جماعتیں مستحکم نہیں اور ولی بابا اپنے سینے میں یہ حسرت لے کر اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گئے۔ اس میں شک نہیں کہ خان عبد الولی خان ملکی سیاست میں ایک متنازعہ شخصیت رہے لیکن اگر ایماندارانہ طور پر انکی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو کردار کی استقامت اور چاروں طرف بڑھتی پھیلتی ہوئی کرپٹ کلچر میں اپنے ملبوس کو پاک اور صاف رکھنے کی ہمت جن چند شخصیات میں نظر آتی ہے عبد الولی خان باباانکی پہلی صف کے آدمی تھے ۔ ولی بابا اپنے اصولوں کی خاطر جتنی جیل کاٹی وہ شاہد ہی کسی اور سیاسی لیڈر نے کاٹی ہو قیام پاکستان سے پہلے انگریز حکومت اور وطن عزیز کی آزادی کے بعد کم و بیش ہر حکومت
(۵)
نے عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ سے پہلے تک انہیں کسی نہ کسی بہانے اسیر زنداں رکھنے کی کوشش کی اور بارہا ان پر غداری کا الزام بھی لگایا گیا جس کی اصل وجہ ہماری سیاست میں اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی روش ہے۔ یہاں ہر حاکم خود بخود پاکستان کا محافظ اور ٹھیکیدار بن جاتا ہے ۔ ولی بابا ایک صاحب کردار انسان تھے وہ جب تک سیاست میں رہے اپنے نظریات پر مضبوطی سے ڈٹے رہے اور اپنے آدرشوں کی حفاظت کرتے رہے اپنے طویل سیاسی کیرئیر میں انہیں بہت اچھے مواقع بھی ملے وہ اگر چاہتے تو با آسانی اپنے ہم عصروں کی طرح دولت کے انبار جمع کر سکتے تھے لیکن موصوف مادہ پرست دنیا کے آدمی تھے ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی ان پر مالی بد دیانتی کا الزام عائد نہ کر سکا۔
انہو ں نے ساری زندگی ہر پلیٹ فارم پر کھل کر بات کی انہیں اس بات کا خوف نہیں تھا کہ مخالفین انکے بارے میں کیا کہیں گے انہو ں نے اپنے عقائد و نظریات کے حوالے سے منافقت سے کام لے کر سیاست نہیں چمکائی وہ جمہوریت کے داعی تھے ان کا شمار قائد اعظم کے مخالفین میں ہوتا تھا لیکن جب جمہوریت اور آمریت میں کسی ایک انتخا ب کا معاملہ آیا تو انہو ں نے اصول پسندی کی بناء پر قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کرکے سب کو حیران کر دیا وہ ایک نڈر اور بہادر سیاست دان تھے انہو ں نے پختونوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا انکے پختون قوم اور ثقافت پربے پناہ احسانات ہیں جب انہوں نے سمجھا کہ کالا باغ ڈیم پختونوں کے مفاد میں نہیں تو انکی زندگی میں طاقتور سے طاقتور حکمران کالا باغ ڈیم نہ بنا سکا انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ڈیم کی تعمیر روکنے کے لئے ہم آخری حد تک جائیں گے اور اگر مجھے جسم سے بم باندھ کر ڈیم کو اڑانا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔
غرض عبد الولی خان بابا شجاعت‘ اصول پرستی جمہوریت پسندی سیاسی بیداری اور اپنے عظیم باپ باچا خان کے فلسفہ امن کا روشن استعارہ تھا جن کی سیاسی جدو جہد کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جسم ہے خاک مگر زخم ہنر زندہ ہے
کیا ہوا تو جو نہیں تیرا سفر زندہ ہے
خان عبدالولی خان بابا طویل علالت کے بعد 89 برس کی عمر میں جمعرات 26 جنوری 2006 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے آپ کی میت آخری دیدار کے لئے کتگھم پارک میں رکھی گئی جمعہ کے روز تین بجے نماز جنازہ ادا کی گئی اور مرحوم کی وصیت کے مطابق ولی باغ چارسدہ میں سپر د خاک کیا گیا۔
















































