باچاخان: ایک رھنما جنہیں صحیح نہیں سمھجھا گیا
مصنف: بابر علی
تحریر: ۱۹۱۷
شاید آج پختونوں کو عدم تشدد کے عظیم حامی خان عبد الغفار خان کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پختون پیچھلے
تیس سالوں سے شدید قسم کی تشدد کا نشانہ رہے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۳۰ میں خدایی خدمتگار تحریک کی بنیاد رکھ کر
سیکولر عدم تشدد کی تحریک کا آغاز کردیا، جس کیوجہ سے اسے سرحدی گاندھی کہا جانے لگا۔
یہ پختونوں کی قدامت پسند ارو مزھبی معاشرے میں شروع کی جانیوالی عدم تشدد کی پہلی تحریک تھی۔
محبت کیوجہ سے باچا خان کے نام سے پکارے جانیوالے یہ شخصیت مہاتھما گاندھی کے بہت قریب رہے اور انڈین
نیشنل کانگریس کے رکن رہے
باچاخان اس عوامی تعرے کے مخالف تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اپنی ایک الگ ریاست ہونی چاہییے۔
جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوگیا اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں رفرنڈم کا فیصلہ ہوگیا کہ اس صوبے
کے عوام فیصلہ کرینگے کہ انکوانڈیا کا حصہ بننا ہے یا پاکستان کا تو باچاخان نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔
غفار خان اور انکے بھایی اور اسوقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب نے مطالبہ کیا کہ رفرنڈم میں تیسرا اپشن بھی
شامل کیا جایے اور وہ یہ کہ پختونوں کیلیے رفرنڈم میں ازاد ریاست (پختونستان) کا اپشن بھی رفرنڈم میں شامل ہو۔
لیکین انکے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہویے صوبے کے بڑے بڑے خانوں اور ملاوں کی مدد کی گیی کہ وہ
مسلم لیگ کی حمایت کریں۔
لارڈ کننگھم نے ١٩٤٢ میں ایک پالیسی نوٹ لکھا جس میں مندجہ ذیل باتیں درج ہیں۔
"
ہم اور ہمارے ایجنٹ مسلسل طور پر پختونوں کو ہندووں کی انقلابی گروہ کے بارے میں چشم پوشی کے خطرات کے بارے میں پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں۔ اکثر قبایلی لوگوں پر ہمارے اس پروپیگنڈے کا اثر ہورہا ہے۔
"
:ایک دوسرے پیپر میں 1939 سے 1943 تک کے عرصے کا ذکر کرتے ہویے لارڈ کننگھم لکھتے ہیں
جنگ (جنگ ؑعظیم دوم) سے اب تک ہمارا پروپیگنڈا بہت کامیاب رہا ہے۔ ہم نے اسمیں اسلامی موضوع کا بہت استعمال کیا ہے۔
بہر حال، جب پاکستان بنا تو غفار خان نے قانون ساز اسمبلی میں اسکے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا۔
انہوں نے محمد علی جناح سے صلح کرنے کی کوشش کی اور اسے پشاور کے دورے کیدوران خدایی
خدمتگاروں کی دفتر کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔ بہر حال، یہ میٹینگ نہ ہوسکی کیونکہ صوبے کے
نیے وزیر اعلیٰ قیوم خان نے سازش کرتے ہویے جناح صاحب سے کہا کہ اگر وہ اس میٹینگ کیلیے
آیے تو اسے قتل کر دیا جایگا۔
عین اسی وقت جناح صاحب نے صوبے میں غفارخان کےبھایی ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت پاکستان
بننے کیساتھ ہی ختم کردی۔ اس سیاسی قدم نے باچاخان کو جناح صاحب سے اور بھی دور کر دیا۔اس سب
سے بڑح کر یہ کہ 1948 میں غفار خان کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کیا گیا اور وہ 1954 تک جیل
میں رہے۔
توڑا عرصہ ازاد رہنے کے بعد انہیں 1956 میں مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنانے کی مخالفت میں ایک
بار پھر گرفتار کیا گیا۔
ون یونٹ اسلیے بنایی گیی کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جایے۔
ون یونٹ میں اسوقت کے صوبہ سرحد، پنجاب اور سندھ کو ایک یونٹ بنایا گیا۔
جنرل ایوب خان کی حکومت میں غفار خان کو وزارت کی پیشکش کی گیی جسے غفار خان نے قبول نہیں کی۔
پھر ایوب خن ہی حکومت میں اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا اور جب ١٩٦٤ میں انکی صحت بگڑ
گیی تو انہیں علاج کرنے کیخاطر رہا کیا گیا۔
برطانیہ میں علاج کرنے کے بعد غفار خان افغانستان چلے گیے اور وہاں جلا وطنی اختیار کرلی۔
1972 میں جب١٩٧٢ میں انکے قایم کردہ نیشنل عوامی پارٹی کی اسوقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میںحکومت آگیی تو وہ افغانستان سے پاکستان واپس آیے۔
لیکین انکی آزادی کم وقتی تھی کیونکہ 1973 میں بھٹو حکومت نے ایک بار پھرانہیں ملتان سے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔
جیل سے ازاد ہو کے انہوں نے فریاد کی کہ انہیں انگریز کیدور میں بھی جیلوں میں ڈالا گیا تھا مگر اگرچہ انکے ساتھ اسکا جھگڑا ہوتا تھا مگر انکا رویہ اسکے ساتھ ایسا نہیں تھاجبکہ ازادی کے بعد کے اسلامی
ریاست میں حکومت کا اسکے ساتھ رویہ ایسا تھا کہ وہ بتا نہیں سکتا تھا۔
باچا خان کی آخری سیاسی سرگرمی کالاباغ ڈیم کے خلاف تھی جو اسکی نظر میں اس صوبے کے کافی رقبے کو زیر آب لاکر نقصان پہنچایگا۔
باچاخان 1988 میں لیڈی ریڈینگ ہسپتال پشاور میں وفات پاگیے۔ اور انکی وصیت کے مطابق انہیں جلال اباد میں دفنایا گیا۔
باچاخان پر تنقید کرنیوالے آج تک انہیں غدار کہتے رہے ہیں۔ وہ اسکے باوجود انہیں غدار کہتے ہیں کہ
انہوں نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کی وفاداری کا حلف بھی اٹھایا تھا۔
پختون لیڈر پاکستان سے صلح کرچکے ہیں کیونکہ انکے کاروباری حضرات ، مڈل کلاس کے افراد اور
مزدورو طبقہ پاکستان کے مختلف حصوں میں کام کرتے رہے ہیں۔
غفار خان نے ساری زندگی اپنے صوبے کو پاکستان کے اندر زیادہ سے زیادہ خود مختار بنانے کی جدوجہد میں گزاری۔
اور یہ ایک ایسا نقطہ نظر تھا جو اس ملک کے اسٹیبلیشمنٹ میں موجود مضبوط مرکز کی وکالت کرنیوالوں
کو کبھی بھی منظور نہیں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment